زمین کا مقناطیسی میدان کرہ ہوائی میں اس کے علاوہ ایک مقناطیسی میدان پایا جاتاہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ کرہ ٔ ہوائی کی سب سے اوپر و...
زمین کا مقناطیسی میدان
کرہ ہوائی میں اس کے علاوہ ایک مقناطیسی میدان پایا جاتاہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ کرہ ٔ ہوائی کی سب سے اوپر والی تہہ ایک مقناطیسی زون سے بنی ہوئی ہے جسے ''وین ایلن پٹی '' (Van Allen Belt) کہتے ہیں۔ زمین کے قلب (Core)یا کوکھ کی خصوصیات سے یہ زون تشکیل پاتاہے۔ ایک لہر سورج سے نسبتاً کم رفتار کے ساتھ نکلتی ہے جو تقریباً 400کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے، اسے ''شمسی ہوا''کہتے ہیں۔ان شمسی ہواؤں کو یہ تہہ کنڑول کرتی ہے جسے وان ایلن تابکاری پٹی(Van Allen Belt) کہتے ہیں جو زمین کے مقناطیسی میدان کے اثر سے پیداہوتی ہے۔ او ریہ دنیا کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔
اس تہہ کی تشکیل کرۂ ارض کی کوکھ کی خصوصیات سے ممکن ہوئی۔ یہ کوکھ اپنے اندر مقناطیسی دھاتیں مثلاً لوہا اورنکل رکھتی ہے۔ زمین کا مرکز (Nucleus)دومختلف اجسام سے مل کر بنا ہوا ہے۔ اس کے اندر کا حصہ ٹھوس اور باہر کا سیال ہوتاہے۔ قلب یا کوکھ کی دونوں تہیں ایک دوسرے کے گرد گھومتی ہیں۔اس حرکت سے دھاتوںمیں ایک مقناطیسی اثر پیداہوتاہے جو مقناطیسی میدان کو تشکیل دیتاہے جو زمین سے ایک طرف سورج کی سمت میں 84,000کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ دوسری سمت میں3لاکھ کلو میٹر تک پھیلا ہواہے۔یہ مقناطیسی میدان ان خطرات سے زمین کو محفوظ رکھتا ہے جن کا خلا کی طرف سے خدشہ رہتاہے۔ شمسی ہوائیں مذکورہ پٹی میں سے نہیں گزر سکتیں،جب شمسی ہوائیں ذرات کی بارش کی شکل میں اس مقناطیسی میدان سے ملتی ہیں تو تحلیل ہو کر اسی پٹی کے گرد بہنے لگتی ہیں۔وان ایلن پٹی دو حصو ں پر مشتمل ہے۔ اندرونی حصہ زمین سے 400سے 1200کلومیٹر سے شروع ہوکر 10,000کلومیٹر تک پھیلاہواہے۔ اس کا انتہائی قوت والا حصہ 3500کلومیٹر پر واقع ہے۔ جبکہ دوسر ا حصہ یاپٹی 10,000سے 84,000 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی بھرپور قوت والا حصہ زمین کی سطح سے 16000کلومیٹر پرواقع ہے۔
یہ پٹیا ں اس قدر انتہائی زیادہ برقی چارج کے حامل ذرات پر مشتمل ہیں کہ اگر ان کی زد میں خلائی جہا ز آجائے تو وہ بھی تباہ ہو جائے گا۔ان دونوں پٹیوں کے درمیان محفوظ ترین خطہ 9000سے 11000کلومیٹر کے درمیان خیال کیا جاتاہے۔ (1)
اگریہ پٹیاں نہ ہوتیں تو سورج سے نکلنے والی انرجی ،جو بکثرت خارج ہوتی رہتی ہے روئے زمین پر زندگی کا بالکل خاتمہ کر دیتی ۔ یہ چونکہ زبردست ہیجان کے ساتھ لپکتی ہے اس لیے اسے ''سورج کے شعلے''(Solar Flares)کہا جاتاہے۔حالیہ برسوں کی تحقیق سے معلوم ہواہے کہ ان شعلوں کا درجہ حرارت 20لاکھ سے ایک کروڑ 33لاکھ سینٹی گریڈتک ہوتاہے۔ (2)
کرہ ہوائی کی سات تہیں
سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق زمین کے اوپر ہماری فضا یعنی کرہ ہوائی مجموعی طورپرسات تہو ں پر مشتمل ہے۔ جس نے ہماری زمین کو کمبل کی طرح گھیرا ہو اہے ،اس کاپھیلاؤزمین کی سطح سے خلا تک 1280کلومیٹر تک ہے۔ سورج کی روشنی وحرارت ،کرہ ہوائی اورہماری زمین کے مقناطیسی میدان نے ہی زمین پر جانداروں کی زندگی کو ممکن بنایا ہے یا دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے انہی انتظامات کی بدولت زمین پر زندگی رواں دواں ہے۔ کرہ ہوائی سورج کی حرارت کو جذب کرتا ہے۔ پانی اوردوسرے کیمیاوی عوامل کاچکر چلاتا ہے۔ اسی کی بدولت موسم بدلتے ،اوربارشیں ہوتی ہیں۔ہم سورج کی الٹراوائیلٹ شعاعوں سے بچتے ہیں اوراسی کی بدولت ہم ریڈیو اورٹی وی وغیرہ کی نشریات سنتے اور دیکھتے ہیں۔کرہ ہوائی بنیادی طورپر چار حصوں پر مشتمل ہے ۔
ٹروپوسفئیر (Tropospher) ۔
یہ زمین کی سطح سے شروع ہوتا ہے اورفضاء میں 8 سے17 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ کرہ ہوائی کی یہ تہہ بہت کثیف اور گاڑھی ہے۔ اگر آپ زمین سے اوپر کی طرف چڑھتے چلے جائیں تو آپ کو اس کا درجہ حرارت کم ہوتا معلوم ہو گا۔ اس تہہ کے اندر درجہ حرارت 17سے منفی 52سینٹی گریڈ تک گر جاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی تہہ میں سب موسم جنم لیتے ہیں، بادلو ں کی تمام قسمیں اسی تہہ میں واقع ہوتی ہیں۔ یہ زمین سے اٹھنے والے آبی بخارات کو گاڑھا کرکے پانی کی شکل دیتی ہے او روہ بارش کی شکل میں زمین پر واپس آجاتے ہیں۔اس تہہ کا ایک چھوٹا سا حصہ جسے ٹروپوپاز (Tropopause) کہتے ہیں' ٹروپوسفئیر کو کرہ ہوائی کی اگلی تہہ سے الگ کرتاہے۔
سٹریٹوسفئیر(Stratosphere)۔
یہ ٹروپوسفئیر کے بالکل اوپر والی تہہ ہے جو 50 کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ٹروپوسفئیرکی نسبت کم کثیف اورخشک فضا رکھتی ہے۔ اس حصے میں درجہ حرارت بتدریج بڑھنے لگتاہے اور یہ 3سینٹی گریڈ تک ہوجاتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی تہہ کے اوپر والے حصے میں اوز ن کی ایک باریک سی پٹی پائی جاتی ہے جوسورج کی طرف سے آنے والی خطرناک شعاعوں اور بالائے بنفشی شعاعوں کو منعکس کر دیتی ہے۔
یہ شعاعیں سخت نقصان دہ تابکاری پر مشتمل ہوتی ہیں، اگر یہ ان کو منعکس نہ کریں تو اس سے جانداروں کو سخت نقصان پہنچ سکتاہے۔ اوزون کی تہہ جو زمین کو گھیر ے ہوئے ہے نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ ان شعاعوں میں اس قدر توانائی ہوتی ہے کہ وہ اگر زمین تک پہنچ جائیں تو تما م جانداروں کو ہلاک کرڈالیں۔ زمین پر زندگی کو ممکن بنانے کے لیے اوزون کی یہ تہہ ایک اور بطور خاص تخلیق کیا ہوا حصہ ہے آسمان کی محفوظ چھت کا۔
اوزون آکسیجن سے پیدا ہو تی ہے۔ آکسیجن گیس کے (O2)سالموں میں آکسیجن کے دو ایٹم ہیں۔ اوزون گیس کے (O3) سالموں میں تین آکسیجن ایٹم ہیں۔وہ بالائے بنفشی شعاعیں جو سورج سے آتی ہیں آکسیجن کے سالمے میں ایک اور ایٹم کا اضافہ کرکے اوزون سالمہ تشکیل دے دیتی ہیں۔ اوزون کی تہہ جو بالائے بنفشی شعاعوں کے عمل سے بنتی ہے مہلک بالائے بنفشی شعاعوں کو قابو میں کر لیتی ہے اور یوں زمین پر زندگی کے لیے مطلوبہ حالات کی بنیادی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ 99% ہوا سٹریٹوسفیئراورٹروپو سفیئر میں پائی جاتی ہے۔ سٹریٹو پاز(Stratospause) سٹریٹوسفیئر کو اگلی تہہ سے الگ کرتی ہے۔
میزو سفیئر(Mesosphere)۔
سٹریٹوسفئیرکے اوپروالی تہہ کو میزو سفیئر(Mesosphere)کہا جاتاہے۔ یہ اوپر فضا میں 80کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے، یہاں درجہ حرارت بتدریج کم ہوتے ہوتے منفی 93سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے۔ اس تہہ میں کیمیاوی عناصر سورج کی حرارت کو جذب کرنے کی وجہ سے کافی سرگرم ہوتے ہیں۔میزوپاز (Mesopause)اس تہہ کو تھرموسفیئر (Thermosphere) سے الگ کرتی ہے۔
تھر مو سفیئر (Thermosphere)۔
یہ 1280کلومیٹر تک بلند ہے، اس حصے میں سورج کی حرارت کی وجہ سے درجہ حرارت بتدریج بڑھتے ہوئے 1727سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے۔ یہاں پر کیمیاوی عوامل زمین کی سطح کی نسبت بڑی تیزی سے عمل پذیر ہوتے ہیں۔ اسی حصے کو سائنس دان بالائی کرہ ہوائی کہتے ہیں۔آئنوسفیئر (Ionosphere) اور ایکسپوسفئیر (Exposphere) ، تھرموسفئیر کا ہی حصہ ہیں(بعض سائنس دان ان کو الگ الگ بھی بیان کرتے ہیں نیز ان کی ترتیب میں بھی اختلاف رائے پایا جاتاہے مگرا ن کے افعال کی نوعیت پر سب متفق ہیں )۔آئنوسفئیر 640کلومیٹر تک بلند ہے 'یہی تہہ سورج کی روشنی کے ذرات فوٹانز کو جذب کرتی ہے اور زمین پر نشر ہونے والی ریڈیائی لہروں کو واپس زمین پر منعکس کردیتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے لیے یہ ممکن ہو جاتاہے کہ ہم ریڈیو ،ٹی وی اور وائرلیس کی نشریات کو دور دور تک بھیج سکیں۔(3)
آئنوسفئیر سے اوپر والا تمام حصہ ایکسوسفیئر (Exosphere)کہلاتاہے۔یہ 1280 کلو میٹر تک بلند ہے اس کے بعدیہ اوپر خلا کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔
زمینی فضا کا یہ کردار یہیں تک محدود نہیں۔یہ زمین کو یخ سردی سے ٹھٹھر کر مردہ ہو جانے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ خلا کی یہ سردی ''منفی 270''درجہ سینٹی گریڈ تک ہوتی ہے۔
مختصراً ہم یو ں کہہ سکتے ہیں کہ اگر زمین میں مقناطیسی میدان تشکیل دینے کی خاصیت نہ ہوتی اور کرہ ٔ ہو ائی کا ایک ڈھانچہ نہ ہو تا ،نہ کثافت ہوتی جو ضرررساں شعاعوں کو چھان لیتی ہے توپھر زمین پر زند گی کا سوال ہی پیدانہ ہوتا۔ بیشک یہ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس قسم کی تنظیم وترتیب پیدا کرلے۔یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے یہ ساری مدافعتی خاصیتیں تخلیق کی ہیں جوانسانی زندگی کے لیے بے حد ضروری تھیں اور اسی نے آسمان تخلیق کیااوراسے ایک محفوظ چھت کی صورت بخشی۔
دوسرے سیاروں کو یہ محفوظ چھت حاصل نہیں ہے۔یہ اس بات کی جانب ایک اور اشارہ ہے کہ اس زمین کو بطورخاص انسانی زندگی کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مریخ سیارے کا پوراقلب ٹھوس ہے اور اس کے گرد کوئی مقناطیسی ڈھال نہیں ہے۔ مریخ چونکہ اتنا بڑا نہیں ہے جتنی یہ زمین، نہ ہی قلب کے سیا ل حصے کو تشکیل دینے کے لیے کافی دباؤ پیداکیا گیا ہے۔ مزیدیہ کہ صرف موزوں اوردرست سائز کاہوناہی سیارے کے گرد مقناطیسی میدا ن کی تشکیل کے لیے کافی نہیں ہے۔ مثال کے طورپر وینس کا قطر اتناہے جتنا زمین کا۔ اس کی کمیت (Mass)زمین کی کمیت سے صرف2%کم ہے اور اس کا وزن کم وبیش اتناہی ہے جتنازمین کا۔ اس لیے دباؤ اور دوسرے اسباب کے حوالے سے یہ ناگزیر ہے کہ ایک دھاتی سیا ل حصہ وینس سیارے کے قلب کو تشکیل دے دے۔ تاہم وینس کے گرد کوئی مقناطیسی میدان نہیں ہے جس کا سبب یہ ہے کہ زمین کے مقابلے میں وینس کی گردشی رفتار کم ہے۔ زمین اپنے محورکے گرد پورا چکر ایک دن میں لگاتی ہے جبکہ وینس کو اس کے لیے243روز درکار ہوتے ہیں۔
چاند اور دوسرے ہمسایہ سیاروں کے سائز اور زمین سے ان کے فاصلے بھی مقناطیسی میدان کی موجودگی کے لیے ضروری ہیں جو زمین کے لیے ''محفوظ چھت ''بناتے ہیں۔ اگران سیاروں میں سے کوئی ایک اپنے اصل سائز سے بڑاہوتا تو اس سے اس میں زیادہ کشش ثقل پید اہو گئی ہوتی۔ کوئی ہمسایہ سیارہ جس میں اس قدر زیادہ کشش ثقل ہو' سیال شے کی شرح رفتار اور زمین کے قلب کے ٹھوس حصوں کو تبدیل کردے گا۔ اور ایک مقناطیسی میدان کو اس کی موجودہ شکل میں تشکیل نہیں ہونے دے گا۔(4)
مختصر یہ کہ زمین کے اوپر زبردست حفاظتی نظام قائم ہے۔ جو کرۂ ارض کو بیرونی خطرات سے بچا رہا ہے۔ اوراللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا ہے ' جدید سائنس نے اس پر تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اوراسمیں اہل عقل ودانش کے لیے ایک واضح پیغام پنہاں ہے کہ وہ غوروفکر کریں کہ یہ کیسے ممکن ہو اکہ جس حفاظتی نظام کے بارے میں سائنس دانوں کو حال ہی میں پتہ چلا ہے اس کا ذکر قرآن مجید میں صدیوں پہلے سے موجود تھا اور یہ بھی قرآن مجید کی سچائی کا ایک واضح ثبوت ہے کہ قرآن مجید میں ان معلومات کے موجودہونے کے باوجود کسی مفسر یا عالم نے ان باتوں کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ یہ سب باتیں1400 سو سال سے انسان کی سمجھ سے بالاتر تھیں تاآنکہ سائنس کی بدولت یہ سب راز ہم پر منکشف ہوئے۔ اوریہی بات قرآن مجید کے منجانب اللہ تعالیٰ ہونے کا ایک ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اس لیے کہ ان سب معلومات کا قرآن مجید کے نزول کے وقت کسی فرد کے پاس ہونانا ممکن تھا ۔
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔ جدہ ۔ سعودی عرب
حواشی
(1)۔ اللہ کی نشانیاں ۔صفحہ85
http://en.wikipedia.org/wiki/Space_geostrategy
(2)۔ http://www.enchantedlearning.com
(3) ۔ http://liftoff.msfc.nasa.gov/academy/space/atmosphere.html
www.csep10.phys.utk.edu/.../ earth/atmosphere.html
www.atm.ch.cam.ac.uk/ tour/atmosphere.html
www.daviddarling.info/.../ E/Earthatmos.html
http://www.enchantedlearning.com
(4) ۔ اللہ کی نشانیا ں ،عقل والوں کے لیے۔صفحہ233-234
ان تہوں کے ہونے کے شواہد کو مزید بیان کرنے کی ضورورت ہے
جواب دیںحذف کریں