کرہ ہوائی…ایک محفوظ چھت کائنا ت میں اللہ تعالیٰ کی ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن پر غورکرنے سے بآسانی انسان اس نتیجہ پر پہنچ سکت...
کرہ ہوائی…ایک محفوظ چھت
کائنا ت میں اللہ تعالیٰ کی ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن پر غورکرنے سے بآسانی انسان اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ ا ن اشیا کو پیدا کرنے والی اور ان میں نظم وضبط برقرار کھنے والی ضرور کوئی نہ کوئی ہستی موجود ہے جو اتنی با اختیا ر،علیم اورمقتدر ہے کہ ان تما م اشیا پر کنڑول کر رہی ہے۔ ان میں سے ایک نشانی زمین کے اوپر کرہ ہوائی کا موجود ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس نشانی کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کر تا ہے:
(وَجَعَلْناَ السَّمَآء سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ج وَّھُمْ عَنْ اٰیٰتِھَامُعْرِضُوْنَ)
''اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا مگر یہ ہیں کہ کائنات کی نشانیوں کی طرف
توجہ ہی نہیں کرتے ''(1)
وہ گیسیں جن سے کرہ ٔ ہوائی بنتا ہے اور ان کا کرہ ہوائی میں ارتکاز نہ صرف انسانوں کے وجود کے لیے بلکہ زمین پر بسنے والے تمام جانداروں کے لیے بے حد اہم ہے۔کرہ ٔ ہوائی میں جو گیسیں تشکیل پاتی ہیں وہ ایک خاص تناسب سے بنتی ہیں اور ان میں تبدیلی نہیں آتی اور ایسا بے شمار توازنات کے باہمی وجود کی بناپر ممکن ہواہے۔
کرہ ہوائی میں چار بنیادی گیسیں پائی جاتی ہیں۔ نائٹروجن 78فی صد،آکسیجن 21فی صد، ارگون (ایک بے رنگ وبے بو عنصر)01 فی صد سے بھی کم ، او رکاربن ڈائی آکسائیڈ 0.03 فی صد۔ کرہ ٔ ہوائی کی ان گیسوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ''وہ جو ردعمل کے نتیجے میں پید ا ہوتی ہیں ''اور وہ ''جو ردعمل کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتیں ''۔ ر دعمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گیسوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہو اکہ جو ردعمل وہ پید اکرتی ہیں وہ زندگی کے لیے لازمی ہے جبکہ ردعمل کے بغیر وجود میں آنے والی گیسیں ایسے مرکبات پیداکرتی ہیں جو زندگی کے لیے تباہ کن ہیں۔ مثال کے طور پر ارگون اور نائٹروجن غیر فعال گیسیں ہیں۔ان سے بہت محدود سے کیمیائی ردعمل پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر یہ آکسیجن کی مانند آسانی سے ردعمل پید اکرسکتیں تو سمندرنائٹرک ایسڈ میں تبدیل ہو جاتے۔
دوسری طرف آکسیجن ہمارے کرۂ ہوائی میں سب سے زیادہ ردعمل پید اکرنے والی گیس ہے۔ اس کرہ ٔ ہوائی میں آکسیجن کا بہت زیادہ ارتکاز ایک ایسی صفت ہے جو نظام شمسی میں زمین کو ان دوسرے سیاروں سے ممیز کرتی ہے جن میں ذرا سی بھی آکسیجن موجود نہیں ہے۔
اگر کرہ ہوائی میں آکسیجن کی مقدار موجودہ مقدارسے زیادہ ہوتی تو اس سے تیزی کے ساتھ عمل تکسید پیداہوتا جس سے چٹانیں اوردھاتیں بہت جلد تباہ ہو جاتیں۔اس کے نتیجے میں زمین میں کٹاؤ پیدا ہو جاتے جس سے یہ ٹکڑ ے ٹکڑے ہو جاتی۔ اس سے جانداروں کو بڑا خطرہ لاحق ہو جاتا۔ اگر ہمارے پاس آکسیجن کچھ کم ہوتی تو سانس لینا مشکل ہو جاتا اور''اوزون گیس''کم پیدا ہوتی۔ اوزون گیس کی مقدار میں تبدیلی زندگی کے لیے مہلک ثابت ہو تی۔ اوزون کی کمی کی وجہ سے سورج کی بالائے بنفشی شعاعیں زیادہ شدت کے ساتھ زمین تک پہنچتیں جس سے جاندار جل جاتے۔ اوزون گیس زیادہ ہوتی تو سورج کی گرمی کو زمین تک پہنچنے سے روکتی اور یہ بھی مہلک بات ثابت ہوتی۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بھی ایسے ہی نازک توازنات ہیں۔پودے اس گیس کے ذریعے سورج کی شعاعوں کو جذب کرتے ہیں ،اسے پانی کے ساتھ ملاتے ہیں اور بائی کاربونیٹ تشکیل دیتے ہیں۔ اس مادے سے چٹانیں پگھلتی ہیں اور سمندروں کے پانی میں حل ہو تی رہتی ہیں۔علاوہ ازیں پودے ا س گیس کو توڑتے بھی ہیں اور آکسیجن کو خارج کرکے دوبارہ واپس کرہ ٔ ہوائی میں بھیجتے ہیں۔ یہ گیس دنیا بھر میں ''پود گھر کا اثر '' (Green House Effect) برقرار رکھنے میں بھی مدددیتی ہے اور اپنے موجودہ درجہ حرارت میں تبدیلی نہیں آنے دیتی۔ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدارکم ہوتی تو زمین پر اور سمندر میں پودوں کی زندگی میں کمی آجاتی۔ نیز جانوروں کے لیے خوراک کم رہ جاتی۔ اگرسمندروں میں بائی کاربونیٹ کم ہوتی تو تیزابیت میں اضافہ ہو تا۔ کرہ ٔ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے سے زمین کا کیمیائی کٹاؤ زیادہ ہو جاتا جس سے زمین کی تہہ میں نقصان دہ شورہ زیادہ جمع ہو جاتا۔مزید یہ کہ پود گھر کا اثر بڑھنے سے زمین کا درجہ حرارت بھی زیادہ ہو جاتا اور نتیجتاً کرہ ٔ ارض پر جانداروں کا وجود ناممکن ہو جاتا۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ کرہ ٔ ہوائی کی موجودگی زمین پر زندگی کے تسلسل کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ تاہم کرہ ٔ ہوائی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سے فلکی طبعی حالات کا باہم وجود ضروری ہے۔ مثلاً
1) زمین کی سطح پر ایک معتدل درجہ حرارت کی موجودگی اشد ضروری ہے۔ اس کے لیے رب کائنات نے درج ذیل انتظامات کیے ہوئے ہیں:
اوّلاً زمین کو سورج سے ایک خاص فاصلے پر ہوناچاہیے۔یہ فاصلہ سورج سے زمین تک پہنچنے والی گرمی کی توانائی کی مقدار میں اہم کردار اداکرتاہے۔ زمین کے مدار میں سورج کے گرد گردش میں ذرا برابر فرق آجائے۔ خواہ یہ زیادہ قریب آجائے یا کچھ اوردور ہو جائے تو اس گرمی میں جو سورج سے زمین تک پہنچ رہی ہے بہت فرق آجائے گا۔ اس حوالے سے حساب لگایا گیا تومعلوم ہو اکہ سورج سے جو گرمی زمین پر پہنچ رہی ہے اس میں 13فی صدکمی آجائے تو زمین پر ایک ایسی برف کی تہہ جمع ہو جائے جو1000میٹر دبیز اورموٹی ہو گی۔ دوسری طرف توانائی میں معمولی سا اضافہ جانداروں کو جھلسا کر رکھ دے گا۔
ثانیاً پورے کرۂ ارض پر درجہ حرارت یکساں ہوناچاہیے۔ اس کے لیے زمین کو اپنے محور کے گرد ایک خا ص رفتار کے ساتھ گردش کرنا ہو گی (1722کلو میڑفی گھنٹہ کی رفتا ر سے خط استواپر ) اگر زمین کی گردش کی رفتار اپنی حد سے معمولی سی بھی بڑھ گئی تو کرہ ٔ ہوائی بے حد گرم ہو جائے گا جس سے گیس کے سالموں کی شرح رفتاربڑھ جائے گی اور وہ زمین کی فضا سے نکل جائیں گئے اورکرۂ ہوائی خلا میں منتشر ہو کر غائب ہو جائے گا۔
اگر زمین کی گردش کی شرح مطلوبہ رفتار سے سست پڑ گئی تو گیس کے سالموں کی زمین سے نکل جانے کی شرح رفتار کم ہو جائے گی اور زمین ان کو کشش ثقل کے باعث جذب کرلے گی اورنتیجتاً کرہ ہوائی غائب ہو جائے گا۔
ثالثاًزمین کے محور کا 23.27درجے جھکاؤ قطبین اور خط استوا کے درمیان زیادہ گرمی کو روکتا ہے ورنہ کرہ ٔہوائی کی تشکیل میں رکاوٹ پیداہو سکتی تھی۔ اگر یہ جھکاؤموجودنہ ہوتا تو قطبی علاقوں اورخط استوا کے درمیان درجہ حرارت کا فرق کئی گنا بڑھ جاتا اور پھر زندگی کا وجود یہاں ناممکن ہو کر رہ جاتا۔
2)پیداشدہ گرمی یاحرارت کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے ایک تہہ کی ضرورت ہے :
زمین کے درجہ حرارت کو ایک ہی جگہ قائم رکھنے کے لیے درجہ حرارت کے ضیاع سے بچنا ضروری تھا ، بالخصوص راتوں کے وقت۔ اس کے لیے ایک ایسے مرکب کی ضرورت تھی جو کرۂ ہوائی سے گرمی کے ضیاع کو روک سکے۔ یہ ضرورت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذریعے پوری کی گئی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ زمین کو ایک غلاف کی مانند ڈھانپے ہوئی ہے جوخلا کی طرف گرمی کے ضیاع کو روکتی ہے۔
3) زمین پر کئی تہیں ایسی ہیں جو قطبین اور خط استوا کے درمیان گرمی کے توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہیں :
قطبین اور خط استواکے درمیان گرمی کا تفاوت 120سینٹی گریڈ ہے۔ اگر گرمی کا ایسا ہی فرق زیادہ چپٹی سطح پر موجود ہوتا تو کرۂ ہوائی میں شدید حرکت آجاتی اورتند طوفان 1000کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل کر دنیا کو تہہ وبالا کردیتے۔ ان طوفانوں کی وجہ سے کرہ ٔ ہوائی میں موجود توازن بگڑ کر بکھرجاتا۔
تاہم زمین پر نشیب و فراز ہیں جو ان طاقتور،ہوائی لہروں کو روکتے ہیں جو گرمی کے فرق کی وجہ سے پیدا ہو سکتی تھیں۔ یہ نشیب وفراز کوہ ہمالیہ سے شروع ہو تے ہیں جو برصغیر ہندوپاک اورچین کے درمیان واقع ہے۔ یہ سلسلہ اناطولیہ میں واقع Taurus Mountains تک چلا جاتا ہے۔ اورپھر ان سلسلوں کے ذریعے جو مغرب میں بحر اوقیانوس اور مشرق میں بحرالکاہل کو آپس میں ملاتاہے ،یہ پہاڑی سلسلہ یورپ میں کوہ ایپلس تک جا پہنچتاہے۔ سمندروں میں جو فالتو گرمی خط استواپر پیدا ہوتی ہے وہ سیا ل مادوں کے خواص کی وجہ سے شمال اورجنوب کی طرف موڑ دی جاتی ہے۔ اس طرح گرمی کے تفاوت میں توازن برقرار ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ہوا کی موجودگی ،جو زندگی کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہزاروں طبعی اور ماحولیاتی توازن قائم کیے گئے ہوں۔ زمین پر زندگی کے تسلسل کو برقرا ر رکھنے کے لیے ان حالات کا صرف ہمارے سیارے پر موجود ہونا کافی نہیں ہے۔ مثال کے طورپر سورج کے بجائے کوئی او رزیادہ چھوٹاستارہ زمین کو نہایت سر د بنادے گا اور ایک بڑا ستارہ زمین کو جھلسادے گا۔
خلا میں ایسے ستاروں پر نظر ڈالنا کافی ہے جہاں زندگی کے آثار نہیں ہیں تاکہ یہ بات سمجھ لی جائے کہ یہ زمین کسی الل ٹپ اتفاق سے وجود میں نہیں آئی۔ وہ حالات جو زندگی کے لیے لازمی ہیں ، اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ''ازخود''اورالل ٹپ وجود میں آہی نہیں سکتے اوریقینا نظام شمسی میں زمین ہی بطور خاص زندگی کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں کرہ ہوائی ہمیں شہاب ثاقب سے بھی بچاتاہے۔ گو ہمیں ا س بات کا علم نہیں ہوتا لیکن بہت سے شہاب ثاقب زمین پر اور دوسرے سیاروں پر گرتے رہتے ہیں۔ یہ شہا ب ثاقب جو بہت بڑے بڑے گڑھے پیدا کردیتے ہیں زمین کو نقصان کیوں نہیں پہنچاتے ،اس کاسبب یہ ہے کہ کرہ ہوائی گرنے والے شہاب ثاقب پر بہت مضبوط رگڑ پید ا کرتاہے۔ وہ ا س رگڑ کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتے اور جل جانے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑو ں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ زیادہ بڑی تباہی سے بچاؤ کی صورت نکل آتی ہے اور یہ سب کچھ کرۂ ہوائی کی وجہ سے ہوتاہے۔ (2)
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔ جدہ ۔ سعودی عرب
حواشی۔
(21)۔ الانبیا ء ۔21:32
(22)۔ اللہ کی نشانیا ں ،عقل والوں کے لیے۔صفحہ231-232
کوئی تبصرے نہیں